Ek bar zaror parhein please

Share:

Ek bar zaror parhein please
ایک بار ضرور پڑھنا پلیز
کچھ ہفتوں پہلے میرا فیصل آباد سے بہاولپور کا سفر تھا۔ مقررہ دن سے ایک دن پہلے میں نے ادھر فیصل آباد میں ایک بس ٹرمینل پر کال کی۔ انکی ابھی ابھی نئی ڈائیو کی سروس شروع ہوئی۔ جس میں ایک لڑکی ہوسٹس ہوتی ہے۔
ایک دن پہلے کال کرنے پر مجھے ایڈوانس بکنگ میں ہوسٹس کے بلکل ساتھ والی سیٹ ملی۔ خیر ڈائیو میرے علاقے سے گزری تو میں بیٹھ گیا۔ لڑکی چونکہ پاس ہی تھی۔ کولڈ ڈرنک نکالی اور مجھے پیش کر دی۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ اسکا شکریہ ادا کیا۔ اور کولڈ ڈرنک پیا۔ پھر نمکو بھی ملی۔ جب موٹروے پر آئے تو اسنے کیک اور جوسز پیش کئے۔
جب ہوسٹس فارغ ہو گئی اور میرئے ساتھ آ کر بیٹھی۔ میں نے اسکے چہرے پر غور کیا تو مجھے لگا کہ اسکی ابھی عمر بہت ہی کم ہے۔ میں نے لڑکی سے پوچھا کہ تمھاری عمر کیا ہے۔ بولی سر میری عمر پندرہ سال ہے۔ جب مجھے اسکی عمر کا پتہ چلا تو مجھے ایک جھٹکا لگا۔ کہ اتنی کم عمر میں ملازمت۔ تنخواہ پوچھی۔ تو بتا یا کہ بیس ہزار ہے۔ میں نے پو چھا کہ تم کو کتنا عرصہ ہوا ملازمت کرتے ہوئے۔ بولی کہ میرا ابھی پہلا مہینہ ہے۔اور یہ سروس بھی ابھی ہی شروع ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ ملازمت کرنے کی کوئی خاص وجہ۔ وہ بولی کہ ابو فوت ہو گئے ہیں۔اور گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہے۔ جسکی وجہ سے ملازمت کر رہی ہوں۔اور تعلیم پوچھنے پر پتہ چلا کہ ابھی میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا۔اور گھر کے حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔
میں نے جب پوچھا کہ لوگوں کا تمھارئے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔ تو اس بچاری کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور کچھ نہ آگے بول سکی تو میں ساری بات سمجھ گیا۔حوصلے کے لیے میرے پاس الفاظ بھی نہیں تھے کہ اسکو حوصلہ دے سکو۔بس اسکے سر پر ہاتھ ہی رکھ دیا۔ جب ہاتھ رکھا تو اسکی آنکھوں میں سے پانی اسکی رخصار پر بہہ گیا۔
آپ سب بھائیوں کو بتا دوں۔ کہ گاڑیوں میں موجود ہوسٹس بھی ہماری بہن اور بیٹی ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کو شوق نہیں ہوتا کہ وہ ملازمت کرے۔ مجبوریاں انسان کو بہت کچھ کروا دیتی ہیں۔ آپ انکی پیسوں سے مدد نہیں کر سکتے نہ ہی وہ آپ سے پیسے مانگیں گی۔ کم از کم اپ انکی عزت تو کریں۔
ان سے احترام سے پیش آیا کرئے۔ یہ غریبوں کی بیٹیاں ہوتی
دل اجازت دیں تو یہ مسیج سب کو شیر کر دیں شکریہ۔


No comments